دیگر نماز حاجت
مکارم اخلاق سے نقل کیا گیا ہے کہ جب آدھی رات ہو جائے تو اٹھ کر غسل کرے اور دو رکعت نماز حاجت بجا لائے کہ پہلی رکعت میں سورۂ حمد کے بعد پانچ سو مرتبہ سورۂ توحید پڑھے، اور دوسری رکعت میں سورۂ حمد کے بعد پانچ سو مرتبہ سورۂ توحید پڑھے لیکن اس کے بعد سورۂ حشر کی آخری آیت لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا القُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ سے تا آخر آیت پڑھے پھر سورۂ حدید کے پہلی چھ آیات پڑھے اور اسی حالت میں قیام میں ایک ہزار مرتبہ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْن کہے اور رکوع و سجود کر کے نماز تمام کرے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کی حمد وثناء بجا لائے، پس اگر اسی روز حاجت پوری ہو جائے تو بہتر ورنہ دوسرے روز بھی یہی عمل کرے، اگر اب بھی حاجت بر نہ آئے تو تیسرے دن اسی عمل کو دہرائے، انشاء اللہ حاجت پوری ہو گی۔
ایک اور نماز
ثقتہ الاسلام شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ عبد الرحیم قصیر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قربان جاؤں میں نے اپنی طرف سے ایک دعا اختراع کی ہے۔ حضرت نے فرمایا اپنی اس اختراع کو رہنے دو بلکہ جب بھی کوئی حاجت درپیش ہو تو رسول اللہؐ کی پناہ تلاش کرو اور یوں کہ دو رکعت نماز پڑھ کر آنحضرتؐ کیلئے ہدیہ کرو۔ میں نے عرض کیا یہ نماز کیسے پڑھوں؟ فرمایا غسل کرو اور پھر دو رکعت نماز فریضہ کی مانند ادا کرو اور نماز کا سلام دینے کے بعد یہ کہو:
اَللّٰھُمَّ ٲَنْتَ اَلسَّلَامُ، وَمِنْكَ اَلسَّلَامُ، وَاِلَیْكَ یَرْجِعُ اَلسَّلَامُ
اے معبود تو سلامتی والا ہے اور سلامتی تجھ ہی سے ہے، سلامتی تیری ہی طرف لوٹتی ہے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ
اے معبود رحمت نازل کر محمدؐ وآل محمدؐ پر
وَبَلِّغْ رُوْحَ مُحَمَّدٍ مِنِّی السَّلَامَ
اور میری طرف سے سلام پہنچا روح محمدؐ
وَٲَرْوَاحَ الْاَئِمَّۃِ الصَّادِقِیْنَ سَلَامِیْ
اور سچے اماموںؑ کی پاکیزہ روحوں پر
وَارْدُدْ عَلَیَّ مِنْھُمُ السَّلَامَ
اور ان کی طرف سے مجھ پر سلام پلٹا
وَاَلسَّلَامُ عَلَیْھِمْ وَرَحْمَۃُ ﷲ وَبَرَكَاتُہٗ۔
سلام ہو ان سب پر خدا کی رحمت اور اس کی برکات
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھَاتَیْنِ الرَّكْعَتَیْنِ ھَدِیَّۃٌ مِنِّیْ
اے معبود یقیناً یہ دو رکعتیں ہدیہ ہیں میری طرف سے
اِلٰی رَسُوْلِ ﷲ صَلَّی ﷲُ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّم
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں
فَٲَثِبْنِیْ عَلَیْھِمَا مَا ٲَمَّلْتُ وَرَجَوْتُ فِیْكَ وَفِیْ رَسُوْلِكَ
پس مجھے ان کا ثواب دے جس کی امید و آرزو تجھ سے ہے اور تیرے رسولؐ سے ہے
یَا وَلِیَّ الْمُؤْمِنِیْنَ
اے مومنوں کے مددگار
پھر سجدے میں جائے اور چالیس مرتبہ پڑھے
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا حَیًّا لَا یَمُوْتُ
اے زندہ پائندہ، اے زندہ جسے موت نہیں
یَا حَیًّا لَا اِلٰہَ اِلَّا ٲَنْتَ
اے زندہ نہیں کوئی معبود مگر تو ہے
یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
اے دبدبے اور عزت والے، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
پھر اپنا دایاں رخسار زمین پر رکھو اور یہی دعا چالیس مرتبہ پڑھو، پھر بایاں رخسار زمین پر رکھو اور چالیس مرتبہ یہی دعا پڑھو۔ اس کے بعد سر سجدے سے اٹھا کر ہاتھوں کو بلند کر کے یہی دعا چالیس مرتبہ پڑھو۔ پھر ہاتھوں کو گردن میں ڈال کر اور انگشت شہادت بلند کر کے التجا کرو اور چالیس مرتبہ یہی دعا پڑھو۔
بعد میں اپنی داڑھی بائیں ہاتھ میں لے کر روتے ہوئے یا رونے کی صورت بناتے ہوئے یہ دعا پڑھو:
یَا مُحَمَّدُ یَا رَسُوْلَ ﷲ ٲَشْكُوْ اِلَی ﷲ وَاِلَیْكَ حَاجَتِیْ
یامحمدؐ یا رسولؐ اللہ، میں اپنی حاجت اللہ کے اور آپؐ کے حضور پیش کر رہا ہوں
وَاِلٰی ٲَھْلِ بَیْتِكَ الرَّاشِدِیْنَ حَاجَتِیْ
اور آپ کے ہدایت یافتہ اہلبیتؑ کے حضور پیش کر رہا ہوں
وَبِكُمْ ٲَتَوَجَّہُ اِلَی ﷲِ فِیْ حَاجَتِیْ
اور آپ کے وسیلے سے اپنی حاجت خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں
پھر سجدے میں جا کر یَا اَللهُ یَا اَللهُ کہو جب تک کہ سانس نہ رک جائے اس کے بعد کہو
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ
رحمت نازل فرما محمدؐ و آل محمدؐ پر
وَافْعَلْ بِیْ كَذَا وَكَذَا
اور میری یہ اور یہ حاجت پوری فرما ۔
كذا وكذا کے بجائے اپنی حاجات بیان کرو۔ اس کے ساتھ ہی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں خدا کے ہاں اس بات کا ضامن ہوں کہ ابھی تم نے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہ کی ہو گی تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی۔
مؤلف کہتے ہیں چوتھے باب میں ہم دین و دنیا کی حاجات کیلئے بہت سی دعائیں نقل کریں گے۔ شیخ کفعمیؒ نے بلد الامین میں ذکر فرمایا ہے کہ جب سخت مشکل در پیش ہو تو درج ذیل کلمات کا غذ پر لکھ کر اسے بہتے پانی میں بہا دے:
بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
خدا کے نام سے جو بڑا رحم والا مہربان ہے
مِنَ الْعَبْدِ الذَّلِیْلِ اِلَی الْمَوْلَی الْجَلِیْلِ
اس ناچیز بندے کی طرف سے عظمت والے مالک کے حضور
رَبِّ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَٲَنْتَ ٲَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ
پروردگار مجھے سخت مصیبت نے گھیر لیا ہے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ
تجھے واسطہ ہے محمد اور ان کی آلؑ کا، رحمت کر محمد اور ان کی آلؑ پر
وَاكْشِفْ ھَمِّیْ وَفَرِّجْ عَنِّیْ غَمِّیْ
میرا رنج دور کر اور غم مٹا دے
بِرَحْمَتِكَ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
مسجد کوفہ میں دیگر نماز حاجت
سیدابن طاؤسؒ نے اپنی کتاب ”المزار“ میں مسجد کوفہ میں محراب امیر المؤمنین علیہ السلام کے اعمال میں ایک نماز حاجت کا ذکر فرمایا ہے جو خصوصی طور پر وہیں ادا کی جاتی ہے اور وہ چار رکعت جو کہ دو سلام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے اس کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ توحید اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد اکیس مرتبہ سورۂ توحید، تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد اکتیس مرتبہ سورۂ توحید اور چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد اکتالیس مرتبہ سورۂ تو حید پڑھی جاتی ہے۔ سلام کے بعد تسبیح پڑھے پھر اکیاون مرتبہ سورۂ توحید پڑھے اور پچاس مرتبہ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ وَاَتُوْبُ اِلِیْہ کہے پھر پچاس مرتبہ سرکار محمدؐ وآلؑ محمدؐ پر صلوات بھیجے اور پچاس مرتبہ کہے:
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
نہیں کوئی طاقت و قوت مگر جو بلند و بزرگ خدا سے ہے
پھر کہے
یَا ﷲُ الْمَانِعُ قُدْرَتَہٗ خَلْقَہٗ
اے وہ اللہ جس کی قدرت مخلوق کو سنبھالے ہوئے ہے
وَالْمَالِكُ بِہَا سُلْطَانَہٗ
جس کے ذریعے وہ اپنے اقتدار کا مالک ہے
وَالْمُتَسَلِّطُ بِمَا فِیْ یَدَیْہِ عَلٰی كُلِّ مَوْجُوْدٍ
جس کے ذریعے وہ اپنے زیر قبضہ ہر موجود چیز پر قابو رکھتا ہے
وَغَیْرُكَ یَخِیْبُ رَجَاءُ رَاجِیْہِ
تیرا غیر اپنے امید وار کو مایوس کرتا ہے
وَرَاجِیْكَ مَسْرُوْرٌ لَا یَخِیْبُ
اور تجھ سے امید رکھنے والا مسرور ہے ناکام نہیں
ٲَسْٲَلُكَ بِكُلِّ رِضًى لَكَ وَبِكُلِّ شَیْءٍ ٲَنْتَ فِیْہِ
تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری ہر رضا اور ہر چیز کے ذریعے جس میں تیرا جلوہ ہے
وَبِكُلِّ شَیْءٍ تُحِبُّ ٲَنْ تُذْكَرَ بِہٖ
اور جسے تو پسند کرتا ہے کہ اس کے ساتھ تیرا ذکر ہو
وَبِكَ یَا ﷲُ فَلَیْسَ یَعْدِلُكَ شَیْءٌ
اور اے اللہ تیری ذات کےذریعے کہ کوئی چیز تیرے برابر نہیں
ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ
یہ کہ تو رحمت کرے محمدؐ اورآل محمدؐ پر
وَتَحْفَظَنِیْ وَوَلَدِیْ وَٲَھْلِیْ وَمَالِیْ
اور حفاظت فرما میری،میری اولاد، خاندان اور مال کی
وَتَحْفَظَنِیْ بِحِفْظِكَ
اور مجھے اپنی امان میں رکھ
وَٲَنْ تَقْضِیَ حَاجَتِیْ فِیْ كَذَا وَكَذَا۔
اور یہ کہ میری یہ اور یہ حاجت پوری فرما۔
كذا وكذا کی بجائے اپنی حاجات گنوائے۔
دیگر نماز حاجت
روایت ہے کہ جس شخص کو خدا سے کوئی حاجت ہو اور وہ چاہتا ہے کہ یہ پوری ہو جائے تو اسے چار رکعت نماز ادا کرنا چاہیے کہ ہر رکعت میں سورۂ حمد کے بعد سورۂ انعام پڑھے اور نماز کے بعد یہ دعا پڑھے:
یَا كَرِیْمُ یَا كَرِیْمُ یَا كَرِیْمُ
اے کر یم ،اے کریم، اے کریم
یَا عَظِیْمُ یَا عَظِیْمُ یَا عَظِیْمُ
اے عظیم، اے عظیم ،اے عظیم
یَا اَعْظَمُ مِنْ كُلِّ عَظِیْمٍ، یَا سَمِیْعَ الدُّعَاءِ
اے سب عظمت والوں سے عظیم تر، اے دعا کو سننے والے
یَا مَنْ لَا تُغَیِّرُھُ اللَّیَالِیْ وَالْاَیَّامُ
اے وہ جس پر رات دن کے بدلنے کا اثر نہیں ہوتا
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ
رحمت فرما محمدؐ پر اور آلؑ محمدؐ پر
وَارْحَمْ ضَعْفِیْ وَفَقْرِیْ وَفَاقَتِیْ وَمَسْكَنَتِیْ
رحم کر میری کمزوری، ناداری، تنگی اور عاجزی پر
فَاِنَّكَ ٲَعْلَمُ بِہَا مِنِّیْ وَٲَنْتَ ٲَعْلَمُ بِحَاجَتِیْ
کہ تو ان کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور تو میری حاجت سے واقف ہے
یَا مَنْ رَحِمَ الشَّیْخَ یَعْقُوْبَ
اے جس نے بوڑھے یعقوبؑ پر رحم کیا
حِیْنَ رَدَّ عَلَیْہِ یُوْسُفَ قُرَّۃَ عَیْنِہٖ
جب ان کے نورِ نظر یوسفؑ کو ان سے ملوا دیا
یَا مَنْ رَحِمَ ٲَیُّوْبَ بَعْدَ طُوْلِ بَلَائِہٖ
اے وہ جس نے لمبی مصیبت کے بعد ایوبؑ پر رحم فرمایا
یَا مَنْ رَحِمَ مُحَمَّدًا وَمِنَ الْیُتْمِ اٰوَاھُ
اے وہ جس نے محمدؐ پر رحم فرمایا اور یتیمی میں ان کو پناہ دی
وَنَصَرَھٗ عَلٰی جَبَابِرَۃِ قُرَیْش وَطَوَاغِیْتِہَا وَٲَمْكَنَہٗ مِنْھُمْ
قریش کے جابر و خودسر رئیسوں کے مقابل ان کو فتح دی اور حکومت عطا کی
یَا مُغِیْثُ یَا مُغِیْثُ یَا مُغِیْثُ۔
اے فریاد رس، اے فریاد رس اے فریاد رس ۔
اس کو مکرر پڑھے پھر خدا سے اپنی حاجت طلب کرے خدا اس کو عطا فرمائے گا۔
دیگر نماز حاجت
سید ابن طاؤس نے روایت کی ہے کہ جمعہ کی رات اور عید قربان کی رات دو رکعت نماز ادا کرو، ہر رکعت میں سورۂ حمد پڑھو اور جب اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ پر پہنچو تو اسے سو مرتبہ دہراؤ، سورۂ حمد کو تمام کرو پھر سورۂ توحید دو سو مرتبہ پڑھو اور نماز کا سلام دینے کے بعد ستر مرتبہ کہو
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
نہیں کوئی طاقت و قوت مگر جو بلند و بزرگ خدا سے ہے۔
پھر سجدہ میں جا کر دوسو مرتبہ کہو
یَارَبِّ یَارَبِّ۔
اے رب، اے رب۔
اور پھر اپنی حاجات پیش کرو کہ انشاء اللہ پوری ہوں گی۔
دیگر نماز حاجت
اسے شیخ مفیدؒ،شیخ طوسیؒ اور سید ابن طاؤسؒ جیسے بہت سے بزرگ علماء نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ سید ابن طاؤسؒ کی روایت کے مطابق اس کی کیفیت یوں ہے کہ جب تمہیں کوئی مشکل در پیش ہو اور اس میں خدا کی مدد مطلوب ہو تو مسلسل تین دن یعنی بدھ جمعرات جمعہ کے روزے رکھو، جمعہ کے روز غسل کرو پاک و پاکیزہ لباس پہنو اور گھر کی سب سے اونچی چھت پر جا کر دو رکعت نماز بجا لاؤ اور پھر ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہو:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ حَلَلْتُ بِسَاحَتِكَ
اے معبود میں یقیناً تیری بارگاہ میں حاضر ہوں
لِمَعْرِفَتِیْ بِوَحْدَانِیَّتِكَ وَصَمَدَانِیَّتِكَ
کہ تیری وحدانیت اور تیری بے نیازی کو جانتا ہوں
وَٲَنَّہٗ لَا قَادِرًا عَلٰی قَضَاءِ حَاجَتِیْ غَیْرُكَ
اور یہ بھی کہ تیرے علاوہ کوئی میری حاجت بر آہی نہیں کر سکتا
وَقَدْ عَلِمْتُ یَارَبِّ ٲَنَّہٗ كُلَّمَا تَظَاھَرَتْ نِعْمَتُكَ عَلَیَّ
اور اے پروردگار میں جانتا ہوں کہ جوں جوں تیری نعمتیں بڑھتی ہیں
اشْتَدَّتْ فَاقَتِیْ اِلَیْكَ
تیری طرف میری احتیاج بڑھتی جاتی ہے
وَقَدْ طَرَقَنِیْ ھَمُّ كَذَا وَكَذَا
اب مجھے یہ اور یہ مشکل آن پڑی ہے ۔
كذ وكذا کی جگہ اپنی حاجات بیان کرو اور پھر کہو:
وَٲَنْتَ بِكَشْفِہٖ عَالِمٌ غَیْرُ مُعَلَّمٍ، وَاسِعٌ غَیْرُ مُتَكَلِّفٍ
اور تو اسے پورا کرنا جانتا ہے بتانے کی ضرورت نہیں، تو وسعت رکھتا ہے تجھے زحمت نہیں
فَٲَسْٲَلُكَ بِاسْمِكَ الَّذِیْ وَضَعْتَہٗ عَلَی الْجِبَالِ فَنُسِفَتْ
پس سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے کہ جسے تو پہاڑوں پر رکھے تو ریزہ ریزہ ہو جائیں
وَوَضَعْتَہٗ عَلَی السَّمٰوَاتِ فَانْشَقَّتْ
آسمانوں پر رکھے تو پاش پاش ہو جائیں
وَعَلَی النُّجُوْمِ فَانْتَشَرَتْ، وَعَلَی الْاَرْضِ فَسُطِحَتْ
ستاروں پر رکھے تو گرنے لگ جائیں، زمین پر رکھے تو چٹیل ہو جائے
وَٲَسْٲَلُكَ بِالْحَقِّ الَّذِیْ جَعَلْتَہٗ عِنْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّی ﷲُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
سوال کرتا ہوں اس حق کے واسطے سے جسے تو نے قرار دیا ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ
وَعِنْدَ عَلِیٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَعَلِیٍّ
اور حضرت علیؑ ، حضرت حسنؑ، حضرت حسینؑ، حضرت علیؑ،
وَمُحَمَّدٍ وَجَعْفَرٍ وَمُوْسٰی وَعَلِیٍّ
حضرت محمدؑ، حضرت جعفرؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت علیؑ،
وَمُحَمَّدٍ وَعَلِیٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُجَّۃِ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ
حضرت محمدؑ، حضرت علیؑ، حضرت حسنؑ اور حضرت حجتؑ کے ساتھ
ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَٲَھْلِ بَیْتِہٖ
یہ کہ تو رحمت فرما محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی اہلبیت علیہ السلام پر
وَٲَنْ تَقْضِیَ لِیْ حَاجَتِیْ
اور یہ کہ میری حاجت پوری کر
وَتُیَسِّرَ لِیْ عَسِیْرَہَا، وَتَكْفِیَنِیْ مُھِمَّہَا
جو مشکل ہے آسان فرما اور سختیوں میں مدد کر
فَاِنْ فَعَلْتَ فَلَكَ الْحَمْدُ
پس اگر تو ایسا کرے تو تیرے لئے حمد ہے
وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَلَكَ الْحَمْدُ
اور نہ کرے تو بھی تیرے لئے حمد ہے
غَیْرَ جَائِرٍ فِیْ حُكْمِكَ
کہ تیرے فیصلے میں ظلم کا گزر نہیں
وَلَا مُتَّھَمٍ فِیْ قَضَائِكَ وَلَا حَائِفٍ فِیْ عَدْلِكَ۔
تیری قضاء میں غلطی نہیں اور تیرے عدل میں خامی نہیں ہے۔
پھر اپنے رخسار کو زمین پر رکھ کر کہو:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ یُوْنُسَ بْنَ مَتَّی عَبْدَكَ
اے معبود بے شک تیرے بندے یونسؑ بن متی نے
دَعَاكَ فِیْ بَطْنِ الْحُوْتِ
مچھلی کے پیٹ میں تجھ کو پکارا تھا
وَھُوَ عَبْدُكَ، فَاسْتَجَبْتَ لَہٗ
وہ تیرا بندہ تھا پس تو نے اس کی دعا قبول فرمائی
وَٲَنَا عَبْدُكَ ٲَدْعُوْكَ فَاسْتَجِبْ لِیْ۔
اور میں بھی تیرا بندہ ہوں تجھ سے دعا کرتا ہوں پس میری دعا قبول فرما۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے کوئی حاجت در پیش ہوتی ہے تو میں اس دعا کو پڑھتا ہوں اور جب واپس آتا ہوں تو میری دعا قبول ہوچکی ہوتی ہے۔
مؤلف کہتے ہیں: سید ابن طاؤسؒ نے اپنی کتاب جمال الاسبوع میں ایک گفتگو درج فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تم خدا سے کوئی حاجت طلب کرو تو تمہاری حالت کم از کم ایسی ہونی چاہیے جیسی کسی دنیاوی حاکم کے پاس کوئی اہم حاجت لے جاتے ہو۔ وہ اس طرح جب تمہیں بادشاہ حاکم سے کوئی حاجت ہوتی ہے تو تم اس کی ہر ممکن رضا وخوشنودی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہو۔ اسی طرح خدا سے حاجت طلب کرتے وقت بھی اس کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرو۔ ایسا نہ ہو کہ دنیاوی حاکم کی طرف تو تمہاری توجہ زیادہ ہو اور خدائے تعالیٰ کی طرف کم ہو، اگر ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ سے مذاق کر رہے ہو گے جس کا نتیجہ ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کی رضا کیلئے تو کم تر کوشش کی جائے اور مخلوق خدا کیلئے زیادہ کوشش کی جائے۔ پس جب تمہارے نزدیک خدا کی قدر ومنزلت اس کے بندوں کی بہ نسبت کم ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خدا کی عظمت وجلالت کا کوئی لحاظ و پاس نہیں اور تم خدا کے بندوں کو اس پر ترجیح دیتے ہو اور خدا کو کم تر گردانتے ہو۔ اس طرح تو بہت ہی مشکل ہو گا کہ تم نماز یا روزے کے ذریعے بھی حاجت روائی کرو اور حاجت روائی کیلئے تم نماز یا روزہ بجا لاؤ تو یہ آزمائش اور تجربے کے لئے نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ آزمائش اس کی ہوا کرتی ہے جس کے بارے میں بد گمانی ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے بارے میں بد گمانی کرتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:
یَظَنَّونَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْٓءِ عَلَیْھِمْ دَائِرَۃُ السَّوْٓءِ
یہ لوگ خدا سے بد گمانی کرتے ہیں بد گمانی تو انہیں کی طرف پلٹی ہے ۔
ہاں تو پورے اطمینان اور مکمل اعتماد کے ساتھ اس کی رحمت اور وعدوں پر بھروسہ کیا جائے۔ نیز جانے رہو کہ خدا کے نزدیک تمہاری امیدوں کی حیثیت ایسی ہے جیسی حاتم سے ایک قیراط ﴿حقیر سی رقم﴾ لینے کی ہو، اس لئے کہ اگر تم ایک قیراط کے لئے حاتم کے پاس جاؤ گے تو تمہیں یقین ہو گا کہ خواہ کچھ بھی ہو حاتم جیسا سخی ایک قیراط تو دے ہی دے گا۔ پس معلوم ہونا چاہیے تمہاری خدا سے حاجت حاتم سے ایک قیراط کی طلب سے کم تر نہیں ہونی چاہیے۔ لہذا خبردار کہ خدا پر تمہارا اعتماد اس سے کم نہ ہو جائے جتنا کہ تم حاتم پر رکھتے ہو۔ نیز یہ بات بھی مناسب ہے کہ جب تمہیں کسی حاجت کیلئے نماز اور روزے کا عمل بجا لانا ہو تو یہ تمہاری دینی حاجات اور ان میں سے بھی اہم سے اہم تر کے لئے ہونا چاہیے۔ ہم سب کی اہم ترین حاجت وہ عظیم شخصیت ہے جن کی ہدایت اور حمایت کی پناہ میں ہم سب رہتے ہیں اور وہ ہیں ہمارے امام العصرؑ ﴿عج﴾ لہذا تمہارا روزہ اور نماز مرتبۂ اول پر تو آنجنابؑ کی قضائے حاجات کیلئے، مرتبہ دوم میں اپنی دینی حاجات کیلئے اور مرتبہ سوم میں تمہاری دیگر حاجات کیلئے ہو۔ مثلا جب کوئی ظالم تمہیں قتل کرنے کے درپے ہو اور تم اس کے شر سے بچنے کیلئے روزہ رکھو لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے بڑھ کر کے تمہاری یہ دینی حاجت ہے کہ تمہیں خدا کی رضا و مغفرت حاصل ہو اور وہ تمہاری طرف توجہ فرمائے اور تمہارے اعمال کو قبولیت سے نوازے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ظالم بادشاہ و حاکم تمہیں قتل کر دے تو اس سے تمہارا دنیاوی نقصان ہو گا اور تمہاری دنیا خراب ہو گی لیکن تمہارا دین محفوظ رہے گا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر ظالم حاکم تمہیں قتل نہ بھی کرے تو بھی تمہیں مرنا ہے اور ایک دن موت کو آنا ہی ہے۔ لیکن اگر تمہیں خدا کی خوشنودی اور مغفرت حاصل نہ ہو تو اس صورت میں تمہاری دنیا وآخرت دونوں برباد ہیں اور پھر تمہیں ایسے بھیانک اور ہولناک حالات سے دو چار ہونا پڑے گا جو کہ تمہارے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا۔ یہ جو پہلے ہم نے بتایا ہے کہ اپنی حاجات پر امام العصرؑ ﴿عج﴾ کی حاجات کو مقدم رکھو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اور اہل دنیا کی بقا آپ ہی کے وجود مبارک سے ہے۔ جب تمہاری زندگی کسی اور کی زندگی پر موقوف ہو تو پھر اپنی حاجات کو اس کی حاجات پر کیسے مقدم کر سکتے ہو بلکہ واجب ہوتا ہے کہ اس کی حاجات کو اپنی حاجات پر فوقیت دی جائے اور اس کی مراد کو اپنی مراد پر مقدم کیا جائے۔ پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مخدوم کائنات تمہارے روزے نماز کا محتاج نہیں ہے لیکن بندگی کا تقاضا اور شرافت کا لازمہ یہی ہے کہ تم ایسا کرو، لہذا اپنی ہر حاجت کے بیان سے پہلے اس خاندان عصمت وطہارت پر صلوات بھیجو امام العصرؑ﴿عج﴾ کی سلامتی کیلئے دعا کرو اور پھر خدا سے اپنی حاجات طلب کرو ۔