اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب آپ کوئی کام کرنا چاہیں تو خدا سے استخارہ کرنے کیلئے کاغذ کے چھ ٹکڑے لیں ان میں سے تین ٹکڑوں پر لکھیں:
بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
خدا کے نام سے جو بڑا رحم والا مہربان ہے
خِیْرَۃٌ مِنَ ﷲِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
طلب خیر ہے اللہ سے جو غلبہ وحکمت والا ہے
لِفُلَانِ ابْنِ فُلَانَۃُ اِفْعَلْ۔
فلاں ابن فلاں کے لئے یہ کام کرو
اور دوسرے تین ٹکڑوں پر اس جگہ لَا تَفْعَلْ (یہ کام نہ کروں) لکھیں جہاں پہلے ٹکڑوں پر اِفْعَلْ (یہ کام کروں) لکھا ہے۔ اب کاغذ کے ان چھ ٹکڑوں کو مصلے کے نیچے رکھ دے اور دو رکعت نماز ادا کرے۔ بعد از نماز سجدے میں جا کر سو مرتبہ کہے:
ٲَسْتَخِیْرُ ﷲ بِرَحْمَتِہٖ خِیْرَۃً فِیْ عَافِیَۃٍ۔
خدا کی رحمت کے واسطے سے اس سے خیر طلب کرتا ہوں اور آسانی بھی ۔
پھر سجدے سے سر اٹھا کر بیٹھ جائے اور کہے:
اَللّٰھُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ فِیْ جَمِیْعِ ٲُموْرِیْ فِیْ یُسْرٍ مِنْكَ وَعَافِیَۃٍ
اے معبود مجھے خیر عطا کر میرے تمام امور میں بہتری پیدا فرما جس میں سہولت اور آسانی ہو۔
اس کے بعد کا غذ کے ان ٹکڑوں کو ہاتھ سے باہم ملا دے اور پھر ایک ایک کر کے باہر نکالے۔ پس اگر یکے بعد دیگرے تین ایسے ٹکڑے نکلیں جن پر افعل لکھا ہو تو یہ کام انجام دے۔ اور اگر متواتر ایسے تین ٹکڑے نکلیں کہ جن پر لا تفعل لکھا ہو اس کام کو انجام نہ دے۔ اگر ایک ٹکڑے پر افعل اور دوسرے ٹکڑے پر لا تفعل لکھا ہو تو پھر یکبارہ پانچ ٹکڑے باہر نکالے اور دیکھے اگر تین پر افعل ہے اور دو پر لا تفعل تو اس کام کو انجام دے اور اگر بر عکس ہو تو انجام نہ دے۔
مؤلف کہتے ہیں استخارہ کے معنی خیر طلب کرنا، لہذا جو کام انجام دینا چاہے اس میں خدا کی خیر طلب کرے اور روایت ہوئی ہے کہ نماز شب کے آخری سجدے میں سو مرتبہ اَسْتَخِیْرُ اللّٰہَ بِرَحْمَتِہٖ کہے۔ نافلۂ صبح کے آخری سجدے میں اور نافلۂ اول کی ہر رکعت میں بھی اسی طرح خدا سے خیر طلب کرنا مستحب ہے۔
یہ بھی جاننا چاہیے کہ علامہ مجلسی نے اپنے والد ماجد سے نقل کیا ہے انہوں نے اپنے استاد شیخ بہائیؒ سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے اساتذہ سے سنا ہے کہ جو حضرت قائم آلؑ محمد عجل اللہ فرجہ کے استخارے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے جو تسبیح پر کیا جاتا ہے۔ وہ یوں کہ تسبیح کو ہاتھ میں لے کر تین مرتبہ محمدؐ وآلؑ محمدؐ پر درود بھیجے پھر تسبیح کے دانوں کو اپنی مٹھی میں لے کر دو دو کر کے شمار کرے، پس اگر ایک دانہ بچ جائے تو اس کام کو انجام دے اور اگر دو دانے بچ جائیں تو انجام نہ دے۔ فقیہ اجل صاحب جواہر نے جواہر الکلام میں نقل فرمایا ہے کہ ہمارے معاصرین میں ایک استخارہ زیر عمل ہے جسے قائم آلؑ محمد عجل اللہ فرجہ کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ اس کی کیفیت یوں ہے کہ دعا پڑھنے کے بعد تسبیح ہاتھ میں لے کر اس کے کچھ دانے مٹھی میں لے کرپھر انہیں آٹھ آٹھ کر کے شمار کرے اگر ایک دانہ بچے تو اچھا ہے، اگر دو بچیں تو یہ ایک مرتبہ منع ہے، اگر تین بچ جائیں تو اس کیلئے اختیار ہے کہ ان میں فعل اور ترک برابر ہے، اگر چار دانے بچ جائیں تو یہ دوبار منع ہے، اگر پانچ بچیں تو بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس میں رنج اور مشقت ہے بعض کے نزدیک اس میں ملامت ہے، اگر چھ بچیں تو خوب اور اس کا کام انجام دینے میں جلدی کی جائے، اگر سات دانے رہ جائیں تو اس کا حکم پانچ دانے بچ جانے کا ہے، اگر آٹھ دانے بچ جائیں تو یہ چوتھی منع ہے۔
یاد رہے کہ اس کتاب کے چھٹے باب میں ہم بعض استخاروں کا ذکر کریں گے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ محدث کاشانیؒ نے تقویم المحسنین میں قرآن مجید سے استخارہ کرنے کیلئے ایام ہفتہ کی ساعتوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا ہے کہ یہ مشہور طریقے کی بنا پر ہے اور اہل بیت اطہارؑ سے اس بارے کوئی حدیث دستیاب نہیں ہوئی۔ چنانچہ فرماتے ہیں استخارہ کرنے کے سلسلے میں اتوار کا دن نیک ہے ظہر تک ،پھر عصر سے مغرب تک۔ پیر کا دن نیک ہے طلوع آفتاب تک، پھر دوپہر سے ظہر تک اور عصر سے عشا کے آخری وقت تک۔ منگل کا دن نیک ہے دوپہر سے ظہر تک اور عصر سے عشا کے آخر تک۔ بدھ کا دن نیک ہے ظہر تک اور عصر سے عشا کے آخر تک۔ جمعرات کا دن نیک ہے طلوع آفتاب تک اور ظہر سے عشا کے آخر تک۔ جمعہ کا دن نیک ہے طلوع آفتاب تک اور زوال سے عصر تک۔ اور ہفتے کا دن نیک ہے دوپہر تک اور زوال سے عصر تک۔ یہ جدول محقق طوسیؒ کی کتاب مدخل منظوم سے نقل کیا گیا ہے۔