نماز وحشت قبر
یہ نماز دو رکعت ہے جس کی کہ پہلی رکعت میں سورۂ حمد کے بعد آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد دس مرتبہ سورۂ قدر پڑھی جاتی ہے۔ پس جب اس نماز کا سلام دے چکے تو کہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ
وَابْعَثْ ثَوَابَہَا اِلٰی قَبْرِ فُلَانٍ
اے معبود رحمت فرما سرکار محمدؐ وآلؑ محمدؐپر
اس نماز کا ثواب فلاں کی قبر کو پہنچا دے۔
فُلَانٍ کی بجائے میت کا نام لے۔
دوسری نماز وحشت کا طریقہ
سید ابن طاؤس نے رسول اکرمؐ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میت کی پہلی رات سے زیادہ سخت وقت اور کوئی نہیں ہوتا۔ لہذا تم اپنے مرنے والوں پر صدقہ دے کر رحم کرو۔ اگر صدقہ نہیں دے سکتے تو تم میں سے کوئی شخص دو رکعت نماز پڑھے کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ توحید دو مرتبہ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر دس مرتبہ پڑھے۔ پھر نماز کو سلام کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد یوں کہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ
وَابْعَثْ ثَوَابَہَا اِلٰی قَبْرِ ذٰلِكَ الْمَیِّتِ ﴿فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ﴾
اے معبود رحمت فرما سرکار محمدؐ اور ان کی آلؑ پر
اور اس نماز کا ثواب اس میت ﴿فلاں بن فلاں﴾ کی قبر کو پہنچا دے ۔
فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ کی بجائے میت اور اس کے باپ کا نام لے پس اسی وقت حق تعالی ایک ہزار فرشتہ اس قبر پر بھیج دیتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک لباس ہوتا ہے اور وہ اس میت کی قبر کو صور پھونکے جانے تک کشادہ کرتے رہیں گے۔ نیز اس نماز پڑھنے والے کو ان تمام چیزوں کی تعداد کے برابر اجر ملتا ہے جن پر سورج طلوع کرتا ہے اور اس کے لئے چالیس درجے بلند کیے جاتے ہیں۔
مؤلف کہتے ہیں کفعمیؒ نے بھی یہ نماز اسی کیفیت کے ساتھ ذکر کی ہے اس کے بعد فرمایا ہے کہ میں نے بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ حمد کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ اور سورۂ توحید دو مرتبہ پڑھتے ہیں۔
نیز علامہ مجلسیؒ نے زاد المعاد میں فرمایا ہے کہ مرنے والوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ خود تو اعمال خیر انجام نہیں دے پاتے وہ صرف اپنی اولاد، رشتہ داروں اور مومن بھائیوں سے آس لگائے ہوئے ہیں اور ان کی نیکیوں کیلئے چشم براہ ہیں۔ پس خاص طور پہ نماز تہجد، فریضہ نمازوں کے بعد اور مقامات مقدسہ کی زیارت کے موقعہ پر ان کیلئے دعا کرنا چاہیے اور والدین کیلئے دوسروں سے کچھ زیادہ دعا کرنا چاہیے نیز ان کیلئے اعمال خیر بجا لانے چاہیے۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ بہت سی اولادیں ایسی ہوتی ہیں کہ والدین کی موجودگی میں ان کی نافرمان ہوتی ہیں لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کیلئے اعمال خیر بجا لانے کے باعث فرماں بردار بن جاتی ہیں۔ اور اسی طرح بہت سی اولادیں ایسی ہیں جو والدین کی زندگی میں ان کی فرمان بردار ہوتی ہیں، لیکن ان کے مرنے بعد ان کے لئے اعمال خیر بجانہ لانے یا کم بجا لانے سے نافرمان ہو جاتی ہیں۔ اپنے فوت شدہ والدین اور رشتہ داروں کے لئے سب سے بہتر اور عمدہ نیکی یہ ہے کہ ان کے واجب قرضے ادا کیے جائیں اور انہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد سے چھٹکارا دلایا جائے اور ان پر حج یا دوسری عبادات کی جو ادئیگی واجب تھی وہ خود یا اجرت دے کر ادا کرائی جائے۔ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادقؑ ہر شب اپنے فرزند کیلئے اور ہر روز اپنے والدین کیلئے دو رکعت نماز پڑھتے تھے کہ پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورۂ قدر اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورۂ کوثر پڑھا کرتے تھے۔ صحیح سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک میت تنگی اور سختی میں ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے آسائش و کشائش عطا کر دیتا ہے پھر میت سے کہا جاتا کہ تجھے یہ آسانی اس لئے میسر آئی کہ تیرے فلاں مومن بھائی نے تیرے لئے نماز پڑھی ہے۔ راوی نے پوچھا آیا ایک نماز میں دو میتوں کو بھی شریک کیا جا سکتا ہے ؟ فرمایا ہاں؛ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ میت کو خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ دعا اور استغفار کی وجہ سے مسرور ہوتی ہے جو اس کے لئے کی جاتی ہے۔ اسے ویسے ہی خوشی ملتی ہے جیسے زندہ شخص کو ہدیہ سے خوشی ہوتی ہے۔ نیز فرمایا کہ میت کیلئے نماز، روزہ، حج، صدقات، دوسرے جو بھی اعمال خیر بجا لائے جائیں اور اس کیلئے دعا کی جائے ان تمام چیزوں کا ثواب قبر میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہے یہ ثواب میت کے لئے بھی لکھا جاتا ہے اور میت کے لئے اعمال بجا لانے والے شخص کیلئے بھی لکھا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں کہ جو مسلمان کسی مرنے والے کے لئے کوئی نیک عمل انجام دیتا ہے اللہ اس کے ثواب کو دگنا کر دیتا ہے اور مرنے والا اس سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی مرنے والے کو ثواب پہچانے کیلئے صدقہ کرتا ہے تو حق تعالیٰ حضرت جبرائیلؑ کو حکم دیتا ہے تو وہ ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اس کی قبر پر جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں نعمت الہی کا طبق ہوتا ہے۔ ہر فرشتہ اس کو السلام علیک یا ولی اللہ کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ اے خدا کے بندے تمہارے لئے یہ ہدیہ فلاں مومن نے بھیجا ہے۔ اس کی قبر منور ہو جاتی ہے اور حق تعالیٰ بہشت میں اسے ایک ہزار شہر عطا فرمائے گا ہزار حوروں سے اس کا ازدواج کرے گا اسے ہزار پوشاکیں پہنائے گا اور اس کی ہزار حاجات پوری فرمائے گا۔
مؤلف کہتے ہیں کفعمیؒ نے بھی یہ نماز اسی کیفیت کے ساتھ ذکر کی ہے اس کے بعد فرمایا ہے کہ میں نے بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ حمد کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ اور سورۂ توحید دو مرتبہ پڑھتے ہیں۔
نیز علامہ مجلسیؒ نے زاد المعاد میں فرمایا ہے کہ مرنے والوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ خود تو اعمال خیر انجام نہیں دے پاتے وہ صرف اپنی اولاد، رشتہ داروں اور مومن بھائیوں سے آس لگائے ہوئے ہیں اور ان کی نیکیوں کیلئے چشم براہ ہیں۔ پس خاص طور پہ نماز تہجد، فریضہ نمازوں کے بعد اور مقامات مقدسہ کی زیارت کے موقعہ پر ان کیلئے دعا کرنا چاہیے اور والدین کیلئے دوسروں سے کچھ زیادہ دعا کرنا چاہیے نیز ان کیلئے اعمال خیر بجا لانے چاہیے۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ بہت سی اولادیں ایسی ہوتی ہیں کہ والدین کی موجودگی میں ان کی نافرمان ہوتی ہیں لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کیلئے اعمال خیر بجا لانے کے باعث فرماں بردار بن جاتی ہیں۔ اور اسی طرح بہت سی اولادیں ایسی ہیں جو والدین کی زندگی میں ان کی فرمان بردار ہوتی ہیں، لیکن ان کے مرنے بعد ان کے لئے اعمال خیر بجانہ لانے یا کم بجا لانے سے نافرمان ہو جاتی ہیں۔ اپنے فوت شدہ والدین اور رشتہ داروں کے لئے سب سے بہتر اور عمدہ نیکی یہ ہے کہ ان کے واجب قرضے ادا کیے جائیں اور انہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد سے چھٹکارا دلایا جائے اور ان پر حج یا دوسری عبادات کی جو ادئیگی واجب تھی وہ خود یا اجرت دے کر ادا کرائی جائے۔ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادقؑ ہر شب اپنے فرزند کیلئے اور ہر روز اپنے والدین کیلئے دو رکعت نماز پڑھتے تھے کہ پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورۂ قدر اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورۂ کوثر پڑھا کرتے تھے۔ صحیح سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک میت تنگی اور سختی میں ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے آسائش و کشائش عطا کر دیتا ہے پھر میت سے کہا جاتا کہ تجھے یہ آسانی اس لئے میسر آئی کہ تیرے فلاں مومن بھائی نے تیرے لئے نماز پڑھی ہے۔ راوی نے پوچھا آیا ایک نماز میں دو میتوں کو بھی شریک کیا جا سکتا ہے ؟ فرمایا ہاں؛ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ میت کو خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ دعا اور استغفار کی وجہ سے مسرور ہوتی ہے جو اس کے لئے کی جاتی ہے۔ اسے ویسے ہی خوشی ملتی ہے جیسے زندہ شخص کو ہدیہ سے خوشی ہوتی ہے۔ نیز فرمایا کہ میت کیلئے نماز، روزہ، حج، صدقات، دوسرے جو بھی اعمال خیر بجا لائے جائیں اور اس کیلئے دعا کی جائے ان تمام چیزوں کا ثواب قبر میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہے یہ ثواب میت کے لئے بھی لکھا جاتا ہے اور میت کے لئے اعمال بجا لانے والے شخص کیلئے بھی لکھا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں کہ جو مسلمان کسی مرنے والے کے لئے کوئی نیک عمل انجام دیتا ہے اللہ اس کے ثواب کو دگنا کر دیتا ہے اور مرنے والا اس سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی مرنے والے کو ثواب پہچانے کیلئے صدقہ کرتا ہے تو حق تعالیٰ حضرت جبرائیلؑ کو حکم دیتا ہے تو وہ ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ اس کی قبر پر جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں نعمت الہی کا طبق ہوتا ہے۔ ہر فرشتہ اس کو السلام علیک یا ولی اللہ کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ اے خدا کے بندے تمہارے لئے یہ ہدیہ فلاں مومن نے بھیجا ہے۔ اس کی قبر منور ہو جاتی ہے اور حق تعالیٰ بہشت میں اسے ایک ہزار شہر عطا فرمائے گا ہزار حوروں سے اس کا ازدواج کرے گا اسے ہزار پوشاکیں پہنائے گا اور اس کی ہزار حاجات پوری فرمائے گا۔