سجدۂ شکر
جب تعقیبات نماز سے فارغ ہو تو سجدہ شکر بجالائے، اس بات پر علمائے شیعہ کا اجماع ہے کہ سجدۂ شکر کسی نعمت کے حاصل ہونے یا کسی مصیبت کے دور ہونے کے وقت بجا لایا جائے، اور اس کی بہترین قسم نماز کے بعد ادائے نماز کی یہ توفیق ملنے پر سجدہ شکر کی ادائیگی ہے۔ امام محمد باقرؐ بہ سند معتبر ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار امام زین العابدینؑ جب بھی خدا کی کسی نعمت کو یاد کرتے تو اس کے شکرانے میں سجدۂ شکر بجا لاتے، جو بھی آیۂ سجدہ تلاوت فرماتے تو سجدہ بجا لاتے، کسی شر سے خوف کھاتے اور خدا اسے دور کر دیتا تو بھی سجدۂ شکر ادا فرماتے، جب بھی واجب نماز سے فارغ ہوتے تو سجدہ بجا لاتے اور جب دو آدمیوں میں صلح کر واتے تو اس کے لیے بھی سجدۂ شکر ادا کرتے۔ آنجنابؑ کے تمام اعضائے سجدہ پر سجدے کے نشان موجود تھے، اسی لیے آپؑ کو ”سجاد“ کہا جاتا ہے۔ صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ جو شخص علاوہ نماز کے کسی نعمت کے ملنے پر خدا کے لیے سجدۂ شکر بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے نام دس نیکیاں لکھ دیتا ہے، دس برائیاں مٹا دیتا ہے اور بہشت میں اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔ دیگر بہت سی معتبر اسناد کے ساتھ آنجنابؑ ہی سے منقول ہے کہ بندے کا خدا سے نزدیک تر مقام اس وقت ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہو اور گریہ کر رہا ہو۔ ایک اور صحیح حدیث میں فرماتے ہیں کہ سجدۂ شکر ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس سے نماز مکمل ہوتی ہے، پروردگار عالم راضی ہوتا ہے اور ملائکہ کو ایسی عبادت پر تعجب ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب بندہ نماز ادا کر لیتا یے اور اس کے بعد سجدۂ شکر بجا لاتا ہے تو خداوند عالم اس کے اور فرشتوں کے درمیان سے پردے ہٹا دیتا ہے، پھر کہتا ہے کہ اے میرے فرشتو! میرے بندے کی طرف نگاہ کرو کہ اس نے میرا فرض ادا کر دیا ہے، میرے عہد کو پورا کر دیا ہے، اس کے بعد اس بات پر میرے لیے سجدۂ شکر اداکیا ہے کہ میں نے اسے اس نعمت سے نوازا ہے۔ اے میرے فرشتو! اب تم ہی بتاؤ کہ اسے کیا انعام دیا جائے؟ وہ کہتے ہیں خداوندا! اپنی رحمت، پھر فرماتا ہے اور کیا دوں؟ وہ عرض کرتے ہیں اپنی جنت، پھر پوچھتا ہے اسے اور کیا دوں؟ وہ عرض کرتے ہیں اس کے مشکل امور کی کفایت اور حاجات کی برآوری۔ اسی طرح خدائے تعالیٰ سوال کرتا جاتا ہے اور ملائکہ جواب دیتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ملائکہ تھک جاتے ہیں اور کہتے ہیں: پروردگارا! ہمیں اب کچھ معلوم نہیں۔ اس پر خالق اکبر فرماتا ہے: میں بھی اس کا اسی طرح شکریہ ادا کرتا ہوں جس طرح اس نے میرا شکر ادا کیا ہے اور میں روز قیامت اپنے فضل اور عظیم رحمت کے ساتھ اس کی طرف نظر کروں گا۔ صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو اس لیے اپنا خلیل بنایا کہ وہ زمین پر بہت زیادہ سجدے کیا کرتے تھے۔ ایک اور معتبر حدیث میں فرماتے ہیں:جب بھی تم خدا کی کسی نعمت کو یاد کرو اور تم ایسی جگہ ہو کہ جہاں مخالفین تمھیں دیکھ نہ رہے ہوں تو اپنا رخسار زمین پر رکھ کر اس کی نعمت کا شکر ادا کرو۔ اگر مخالفین وہاں موجود ہوں اور تم سجدہ نہیں کر سکتے تو اپنا ہاتھ پیٹ کے نچلے حصّے پر رکھ کر تواضع کے طور پر جھک جاؤ تاکہ مخالفین یہ سمجھیں کہ تمہیں درد شکم ہو گیا ہے۔ بہت سی روایات میں وارد ہے کہ اللہ تعالےٰ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا: جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کس لیے منتخب کیا اور ساری مخلوق میں سے کلیم بنایا ہے؟ موسٰیؑ نے عرض کیا: پروردگارا! میں نہیں جانتا! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس لیے کہ میں نے اپنی ساری مخلوقات کے حالات دیکھے اور تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا کہ جس کا نفس میرے سامنے تمہارے نفس سے زیادہ عاجز و درماندہ ہو کیونکہ جب تم نماز سے فارغ ہوتے ہو تو اپنے دونوں رخسار خاک پر رکھ دیتے ہو۔ سند موثق کے ساتھ امام علی رضاؑ سے منقول ہے کہ واجب نماز کے بعد سجدۂ شکر اس امر پر خدا کے شکر کی ادائیگی ہے کہ اس نے اپنے بندے کو یہ توفیق دی ہے کہ وہ اس کا عائد کردہ فرض ادا کر سکے۔ اس سجدے میں کم از کم ذکر یہ ہے کہ تین مرتبہ شُكْرًا لِلّٰہِ کہا جائے۔ راوی نے پوچھا کہ شُكْرًا لِلّٰہِ کے کیا معنی ہیں؟ امامؑ نے فرمایا اس کے معنی یہ ہیں کہ میں یہ سجدہ اس لیے کر رہا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس عمل کی توفیق دی ہے کہ میں اس کے لیے کھڑا ہوا اور اپنا فرض ادا کیا، میں یہ سجدہ اسی بات کے شکرانے کے طور پر کر رہا ہوں۔ خدا کا شکر مزید نعمت اور اطاعت کی توفیق کا موجب ہوتا ہے اور اگر نماز میں کوئی ایسی خامی رہ گئی ہو جو نافلہ کے ذریعے پوری نہ ہو پائی ہو تو وہ اس سجدے کے ذریعے پوری ہو جاتی ہے۔
سجدۂ شکر کی کیفیت
سجدۂ شکر کی کیفیت یہ ہے کہ اسے جس طرح بھی بجا لایا جائے، ادا ہو جاتا ہے۔ اور احوط یہ ہے کہ انسان زمین پر ہو اور نماز کے سجدے کی مانند سات اعضا پر سجدہ کرے۔ نیز اپنی پیشانی اس چیز پر رکھے جس پر نماز میں پیشانی رکھنا صحیح ہوتا ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ سجدۂ نماز کے برعکس ہاتھوں کو زمین پر دراز کر دے اور پیٹ کو زمین سے ملادے اور سنت ہے کہ پہلے پیشانی کو زمین پر رکھے پھر دائیں رخسار کو اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے، پھر پیشانی کو دوبارہ زمین پر رکھے، اور یہی وجہ ہے کہ اس سجدے کو شکر کے دو سجدے کہا جاتا ہے۔ بظاہر یہ سجدہ ذکر کے بغیر بھی ادا ہو جاتا ہے لیکن سنت ہے کہ ذکر بھی کرے اور بہتر ہے کہ ان اذکار اور دعاؤں کے ذریعے ذکر کیا جائے جو بعد میں نقل کی جائیں گی۔ اور مستحب ہے کہ اس سجدے کو طول دیا جائے۔ چنانچہ منقول ہے کہ امام موسیٰ کاظمؑ طلوع آفتاب کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ زوال آفتاب ہو جاتا اور عصر کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ مغرب کا وقت ہو جاتا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آنجنابؑ دس سال تک روزانہ طلوع آفتاب سے زوال آفتاب تک سجدے میں رہا کرتے تھے۔ صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ امام علی رضاؑ اتنی اتنی دیر تک سجدے میں پڑے رہتے کہ مسجد کے سنگریزے آپؑ کے پسینے سے تر ہو جاتے۔ اور آپؑ اپنے دونوں رخسار زمین پر رکھے رہتے۔ رجال کشی میں مذکور ہے کہ فضل بن شاذان، ابن ابی عمیر کے پاس آئے تو وہ حالت سجدہ میں تھے اور انہوں نے اسے بہت طول دیا، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھا یا تو ان کے اس سجدے کے طولانی ہونے کا ذکر کیا گیا تو ابن ابی عمیر نے کہا: اگر تم لوگ جمیل بن دراج کے سجود کو دیکھتے تو میرے سجدے کو طولانی نہ سمجھتے۔ اس کے بعد کہا: ایک روز میں جمیل بن دراج کے پاس گیا تو انہوں نے بہت ہی طویل سجدہ کیا، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو میں نے کہا: آپ نے تو بہت ہی طویل سجدہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا: اگر تم معروف بن خرتوذ کے سجدے کو دیکھتے تو میرے اس سجدے کو مختصر ہی سمجھتے۔ فضل بن شاذان ہی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی بن فضال عبادت کے لیے صحرا میں چلے جاتے اور اپنے سجدے کو اتنا طول دیتے ہیں کہ صحرا کے پرندے کپڑا سمجھ کر ان کی پشت پر آن بیٹھتے، وحشی جانور ان کے اردگرد چلتے پھرتے رہتے اور ان سے کسی قسم کی وحشت محسوس نہ کرتے۔ نیز روایت ہوئی ہے کہ علی بن مہزیار طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سجدۂ الٰہی میں چلے جاتے اور جب تک اپنے ایک ہزار ﴿مومن﴾ بھائیوں کے لیے دعا نہ کر لیتے سجدے سے سر نہ اٹھاتے اور طویل سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانی پر یوں محراب پڑچکے تھے جیسے اونٹ کے زانوؤں پر ہوتے ہیں۔ روایت ہوئی ہے کہ ابن ابی عمیر نماز فجر کے بعد سجدۂ شکر میں سر رکھتے اور ظہر تک نہیں اٹھاتے تھے۔ افضل یہ ہے کہ سجدۂ شکر تمام تعقیبات کے بعد اور نوافل سے پہلے کیا جائے ۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ سجدۂ شکر نماز مغرب کے نوافل کے بعد بجا لایا جائے اور بعض دیگر علماء کہتے ہیں کہ سجدۂ شکر نوافل سے پہلے کیا جائے۔ ظاہراً دونوں صورتیں بہتر ہیں اور اس کا نوافل سے پہلے بجا لانا افضل ہے۔ البتہ حمیریؒ نے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ سے روایت کی ہے کہ اگر دونوں طرح سے ادا کیا جائے تو شاید زیادہ بہتر ہو۔
اب رہ گئیں سجدۂ شکر میں پڑھی جانے والی دعائیں تو وہ بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے چند ایک آسان ترین ہیں اور وہ یہ ہیں ۔
﴿۱﴾ معتبر سند کے ساتھ امام علی رضاؑ سے منقول ہے کہ اگر تم چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو شُكْرًا شُكْرًا اور چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو عَفْوًا عَفْوًا
اور عیون اخبار الرضا میں رجاء بن ابی ضحاک روایت کرتے ہیں کہ امام علی رضاؑ خراسان میں جب نماز ظہر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سر سجدے میں رکھ کر سو مرتبہ کہے:
اور جب عصر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سجدے میں سو مرتبہ کہے:
﴿۲﴾ شیخ کلینیؒ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ بندہ اس وقت اپنے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہو اور اسے پکارے پس جب سجدہ شکر میں جائے تو کہے:
اب اپنی حاجات طلب کرے اور کہے:
﴿۳﴾ شیخ کلینیؒ نے موثق سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ ایک رات میں نے سنا کہ میرے والد گرامی مسجد میں حالت سجدہ میں روتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے:
﴿۴﴾شیخ کلینیؒ نے معتبر سند کے ساتھ امام موسیٰ کاظمؑ سے روایت کی ہے کہ آنجنابؑ سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے۔
﴿۵﴾ شیخ کلینیؒ نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ایک شخص امام جعفر صادقؑ خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکایت کی کہ میری ایک ام ولد لونڈی ہے جو بیمار رہتی ہے۔ حضرت نے فرمایا: اس سے کہو کہ ہر واجب نماز کے بعد سجدہ شکر میں یہ کہا کرے:
پھر اپنی حاجات طلب کرے۔
﴿۶﴾ بہت ہی معتبر روایات میں منقول ہے کہ امام جعفر صادقؑ اور امام موسیٰ کاظمؑ سجدہ شکر میں بکثرت یہ کہا کرتے تھے:
﴿۷﴾ صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ امام جعفر صادقؑ سجدہ شکر میں یہ کہا کرتے تھے۔
﴿۸﴾ بعض معتبر کتابوں میں امیر المؤمنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ اللہ کے نزدیک بہترین کلام یہ ہے کہ سجدے میں تین مرتبہ کہیں:
﴿۹﴾ جعفریات ﴿مجموعہ اقوال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ﴾ میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسولؐ خدا جب سجدے میں سر رکھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
﴿۱۰﴾ قطب راوندی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب تمہیں کوئی سخت مصیبت درپیش ہو یا انتہائی غم و اندوہ لاحق ہو تو زمین پر سجدے میں جا کر کہو:
عدۃ الداعی میں آپؑ ہی سے روایت ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی مصیبت آپڑے یا کوئی مشکل پیش آ جائے یا کوئی رنج و غم پریشان کرنے لگے تو وہ اپنے گھٹنوں تک اور کہنیوں تک کپڑا ہٹائے اور ان کو زمین پر لگادے اپنا سینہ زمین سے لگا دے اور خدا سے اپنی حاجات طلب کرے۔
﴿۱۱﴾ ابن بابویہؒ نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ جب بندہ سجدے میں تین مرتبہ یہ کہے:
تو خدا تعالیٰ جواب میں کہتا ہے لبیک ﴿ہاں﴾ اے میرے بندے مجھ سے اپنی حاجات بیان کر۔ مکارم الاخلاق میں ہے کہ جب کوئی شخص سجدے میں
کہتا ہے یہاں تک کہ اس کی سانس رک جائے تو خدا فرماتا ہے کہ اے بندے اپنی حاجات بیان کر ۔
﴿۱۲﴾ مکارم الاخلاق میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو سجدے میں کہہ رہا تھا۔
اس وقت آنحضرتؐ نے اس شخص سے فرمایا کہ اپنا سر اٹھا لو کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اس پیغمبرؐ کی دعا پڑھی ہے جو قوم عاد میں آئے تھے۔
مؤلف کہتے ہیں: ہم نے مسجد کوفہ اور مسجد زید کے اعمال میں بعض دعائیں نقل کی ہیں جو سجدے میں پڑھی جاتی ہیں۔
شیخ طوسیؒ نے مصباح المتہجد میں سجدۂ شکر کے بیان میں ذکر کیا ہے، مستحب ہے کہ انسان اپنے بھائیوں کے لیے سجدے میں یہ دعا پڑھے:
جب سر سجدے سے اٹھائے تو اپنے ہاتھوں کو مقام سجدہ سے مس کرے اور پھر انہیں اپنے چہرے کے بائیں طرف پھیرے ، پھر پیشانی پر اور پھر چہرے کی دائیں طرف تین مرتبہ پھیرے اور ہر بار یہ دعا پڑھے: