فضائل تعقیبات
جب نماز سے فارغ ہو تو تعقیبات میں مشغول ہو جائے کیونکہ اس بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے جیسا حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
اس آیت کی تفسیر میں مذکور ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے آپ کو پابند کرو اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جاؤ، اس سے اپنی حاجت طلب کرو، اس کے علاوہ ہر ایک سے امیدیں منقطع کر لو۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ تم میں سے جو شخص نماز سے فارغ ہو، وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرے اور دعا مانگتے مانگتے اپنے آپ کو تھکا دے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی تعقیبات رزق میں اضافے کا سبب بنتی ہیں اور مومن اس وقت تک حالت نماز ہی میں شمار ہوتا ہے جب تک کہ ذکر و دُعا میں لگا رہے، نیز اس حال میں وہ نماز ہی کے ثواب کا حامل ہوتا ہے۔ واجب نماز کے بعد مانگی جانے والی دُعا مستحب نماز کے بعد مانگی جانے والی دُعا سے بہتر ہوتی ہے۔ علّامہ مجلسیؒ فرماتے ہیں، ظاہر یہ ہے کہ تلاوت، ذکر اور دُعا جو عرف میں نماز کے ساتھ متصل ہوں وہ ”تعقیبات نماز“ کہلاتے ہیں، لیکن افضل یہ ہے کہ با وضو ہو کرقبلہ رُخ بیٹھ کر اور بہتر ہے کہ تشہد کے انداز میں بیٹھ کر تعقیبات بجا لائے اور تعقیبات کے دوران خصوصاً نماز عشا کی تعقیبات کے دوران کسی سے بات نہ کرے۔ بعض بزرگان کا یہ ارشاد بھی ہے کہ تعقیبات میں بھی تمام شرائط نماز کو پیش نظر رکھے۔ نماز کے بعد خواہ چلتے ہوئے ہی قرآن، ذکر اور دعا میں مشغول رہے اس کو تعقیبات کا ثواب مل جائے گا۔
مؤلف کہتے ہیں: آئمہ اطہار سے تعقیبات نماز کے ضمن میں دین و دنیا سے متعلق بہت سی دُعائیں منقول ہیں۔ کیونکہ بدنی عبادات میں سب سے زیادہ باشرف عبادت نماز ہے اور تعقیبات ماثورہ تکمیل نماز میں بہت زیادہ دخل رکھتی ہیں، ان کے ذریعے حاجات بر آتی ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ دُعاگو مؤلف کے دل میں یہ بات آئی ہے کہ ان تعقیبات میں سے بعض کا ذکر اس رسالے میں کرے چنانچہ یہ تعقیبات علامہ مجلسیؒ کی کتاب ”بحار الانوار“ اور ”مقیاس“ سے نقل کی جا رہی ہیں۔ پس عرض ہے کہ تعقیبات کی دو قسمیں ہیں مشترکہ اور مختصہ۔
مشترکہ تعقیبات
مشترکہ تعقیبات وہ ہیں جو ہر نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں ہم ان سے چند ایک کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے سب سے اوّل، تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہے۔
﴿۱﴾ تسبیح فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا
اس کی فضیلت میں بے حد و حساب احادیث وارد ہوئی ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ہم اپنے بچوں کو حضرت زہراؑ کی تسبیح کا حکم بھی ویسے ہی دیتے ہیں جس طرح نماز کا حکم دیتے ہیں لہذا اسے کسی حال میں بھی ترک نہ کرو۔ جو شخص پابندی کے ساتھ جناب زہراؑ کی تسبیح پڑھتا ہے وہ کبھی بدبخت اور شقی نہیں ہو گا۔ معتبر روایات میں وارد ہوا ہے کہ قرآن مجید میں خداوند عالم نے جس ”ذکرکثیر“ کا حکم دیا ہے وہ تسبیح حضرت زہراؑ ہے۔ چنانچہ جو شخص ہر نماز کے بعد حضرت زہراؑ کی تسبیح پڑھتا ہے وہ ذکر کثیر کرتا اور خدا کو بہت یاد کرتا ہے۔ گویا وہ اس آیتِ مجیدہ میں موجود حکم
پر عمل پیرا ہوتا ہے معتبر سند کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جو شخص حضرت فاطمہ زہراؑ کی تسبیح پڑھنے کے بعد استغفار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔ زبان پر تو اس تسبیح کے سو الفاظ لانا ہوتے ہیں لیکن میزان عمل میں ہزار کے برابر ہیں۔ اسی سے شیطان دور ہوتا ہے اور رحمان راضی ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے کہ جو شخص نماز کے بعد اپنے پاؤں کو نماز کی کیفیت سے ہٹانے سے پہلے حضرت فاطمہ زہراؑ کی تسبیح پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جنّت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔ ایک اور معتبر حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ہر نماز کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ کی تسبیح پڑھنا، روزانہ ہزار رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ معتبر روایات کے مطابق حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی تسبیح سے بہتر کوئی اور تسبیح و تمجید نہیں ہے جس سے عبادت الٰہی کی جائے، کیونکہ اگر اس سے بہتر کوئی اور چیز ہوتی تو رسولؐ خدا حضرت فاطمہ زہراؑ کو وہی عطا فرماتے۔ اس کی فضیلت میں اتنی زیادہ احادیث منقول ہیں کہ ان سب کو اس مختصر سے رسالہ میں ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ اس تسبیح کی کیفیت کے متعلق احادیث میں اختلاف ہے، لیکن ان میں سے زیادہ مشہور اور ظاہر یہ ہے کہ چونتیس مرتبہ:
تینتیس مرتبہ:
تینتیس مرتبہ:
بعض روایات میں سُبحَانَ ﷲ کو الحَمدُ لِلّٰه سے پہلے ذکر کیا گیا ہے جب کہ بعض علماء نے ان دونوں طریقوں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ نماز کے بعد پہلے طریقہ کے مطابق پڑھے اور سونے کے وقت دوسرے طریقہ کے مطابق پڑھے اور ظاہراً دونوں صورتوں میں پہلا طریقہ ہی مشہور اور اولیٰ ہے اور سنت ہے کہ تسبیح مکمل کرنے کے بعد ایک مرتبہ کہے: لَا اِلٰہَ اَلَّا ﷲ ۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص ہر نماز کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ کی تسبیح پڑھے اور اس کے آخر میں لَا اِلٰہَ اَلَّا ﷲ کہے تو خدا اسے بخش دے گا۔
بہتر یہ ہے کہ خاک شفا کی تسبیح کے دانوں پر اس تعداد کو شمار کرے تمام ذکر و اذکار میں خاک شفا کی تسبیح کا استعمال سنت ہے اور خاک شفا کی تسبیح ہر وقت اپنے پاس رکھنا مستحب ہے یہ تمام بلاؤں کا حرز ہے اور بے انتہا ثواب کا موجب ہے۔ منقول ہے کہ ابتداء میں حضرت فاطمہ زہراؑ نے پشم کے دھاگوں پر گانٹھیں لگائی ہوئی تھیں اور وہ انہی پر یہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں۔ جب جناب حمزہ بن عبد المطلب شہید ہو گئے تو حضرت زہراؑ نے اس شہید بزرگوار کی قبر کی مٹی سے تسبیح بنائی اور اس پر پڑھا کرتی تھیں۔ تب دوسرے لوگوں نے بھی اس طریقے کو اختیار کر لیا، لیکن جب سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام شہید کر دیئے گے تو سنت قرار پایا کہ اس شہید مظلومؑ کی قبر کی مٹی ﴿خاک شفا﴾ سے تسبیح تیار کر کے اس کے ذریعے ذکر و اذکار پڑھا جائے۔ امام زمانہؑ ﴿عج﴾ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ میں خاک شفا کی تسبیح ہو اور وہ ذکر پڑھنا فراموش کر بیٹھے تو بھی اس کیلئے ذکر کا ثواب لکھا جائے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خاک شفا کی تسبیح خود بخود ذکر اور تسبیح پڑھتی رہتی ہے خواہ آدمی نہ بھی پڑھے، یہ بھی فرمایا کہ ایک ذکر یا استغفار جو اس تسبیح سے انجام پائے وہ دوسری تسبیحوں کے ساتھ انجام پانے والے ستر ذکر اور استغفار کے برابر ہے۔ اگر کوئی کسی ذکر کے بغیر بھی اس کے دانوں کو پھراتا رہے تو بھی اس کیلئے ہر دانہ کے بدلے سات تسبیحوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ذکر کے ساتھ پھرائے جانے والے ہر دانے کا ثواب چالیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حوران جنّت جب کسی فرشتے کو زمین پر آتے دیکھتی ہیں تو اس سے التماس کرتی ہیں کہ وہ ان کے لیے تربت سید الشہداء ﴿خاک شفا﴾ کی تسبیح لیتا آئے۔ حدیث صحیح میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مومن کو پانچ چیزوں سے خالی نہیں ہونا چاہیئے مسواک، کنگھی، جائے نماز، عقیق کی انگوٹھی اور چونتیس دانوں کی تسبیح اس سلسلے میں خام اور پختہ دونوں بہتر ہیں لیکن خام زیادہ بہتر ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص خاک شفا سے ایک تسبیح پڑھتا ہے اللہ اس کیلئے چار سونیکیاں لکھ دیتا ہے، چار سوگناہ مٹا دیتا ہے، چار سو حاجات پوری کرتا ہے اور چار سو درجات بلند کرتا ہے۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تسبیح کا دھاگا نیلے رنگ کا ہونا چاہیئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کیلئے اپنی انگلیوں پر تسبیح پڑھنا فضیلت رکھتا ہے لیکن خاک شفا کی فضیلت والی احادیث مطلقاً زیادہ اور قوی ہیں۔
﴿۲﴾ تکبیرات اور دعائے وحدت
مستحب ہے کہ فریضہ نماز کے بعد ہاتھوں کو تین مرتبہ اُٹھا کر چہرے کے سامنے کانوں کی لوؤں تک لے جائے اور پھر رانوں پر ہاتھ رکھے اور ہر مرتبہ ﷲُ اَكبَرُ کہے۔ چنانچہ علی بن ابراہیم، سیّد ابن طاؤس اور ابن بابویہ نے معتبر اسناد کے ساتھ روایت کی ہے کہ مفضل بن عمر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ نمازی کس بنا پر نماز کے بعدتین مرتبہ تکبیر کہتا ہے تو آنجنابؑ نے فرمایا: اس لیے کہ جب آنحضرتؐ نے مکّہ کو فتح کیا تو حجر اسود کے پاس اپنے ساتھیوں سمیت نماز ظہر ادا کی اور جب نماز کا سلام کہہ چکے تو تین مرتبہ تکبیر کہی اور ہاتھوں کے اٹھانے کے وقت کہا:
پھر آنحضرتؐ نے اپنا رُخ اصحاب کی طرف کیا اور فرمایا، اس تکبیر اور اس دُعا کو ہر فریضہ نماز کے بعد دہراتے رہنا اور اسے ترک نہ کرنا، جو شخص یہ عمل کرے گا وہ اسلام اور لشکر اسلام کی تقویت پر خدا کے حضور اس نعمت کا شکر ادا کرے گا۔ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ جب حضرت صادقؑ آل محمد نماز سے فارغ ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو سر مبارک تک بلند کر کے دعا مانگتے تھے۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب کوئی بندہ اپنے ہاتھ خدا کی طرف بلند کر کے دُعا مانگتا ہے تو خدا کو اس امر سے حیا آ جاتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ پلٹائے اس لیے دُعا مانگو، ہاتھوں کو نیچے کرتے وقت انہیں اپنے سر اور چہرے پر پھیر لو۔
﴿۳﴾ دعائے استغفار
شیخ کلینیؒ نے معتبر سند کے ساتھ حضرت امام محمدباقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد پاؤں کو پلٹا نے سے پہلے تین مرتبہ یہ دُعا پڑھے تو خداوند اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا خواہ وہ گناہ کثرت میں سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اور وہ دُعا یہ ہے:
ایک روایت کے مطابق جو شخص ہر روز یہ دعائے استغفار پڑھے تو خدا اس کے چالیس گناہ کبیرہ معاف کر دے گا۔
﴿۴﴾ دعائے اُعیذ
شیخ کلینی معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا اس دعا کو ہر فریضہ کے بعد پڑھو اور ہرگز ترک نہ کرو:
﴿۵﴾ دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا
شیخ کلینیؒ نے معتبر سند کے ساتھ علی بن مہزیار سے روایت کی ہے کہ محمد بن ابراہیم نے امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ مولا اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے ایک ایسی دعا تعلیم فرمائیں جو میں ہر نماز کے بعد پڑھوں اور اس سے مجھے دُنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہو جائے اس کے جواب میں امام نے تحریر فرمایا کہ تم ہر نماز کے بعد یہ دُعا پڑھا کرو:
﴿۶﴾ نماز واجبہ کے بعد دعا
کلینیؒ اور ابن بابویہؒ نے صحیح و غیر صحیح اسناد کے ساتھ امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ نماز واجبہ کے بعد کم سے کم دُعا جو کافی ہو سکتی ہے وہ یہ ہے:
ابن بابویہؒ کی روایت کے مطابق یہ دُعا یوں ہے:
﴿۷﴾ طلب بہشت کی دعا
سنت ہے کہ جب نماز سے فارغ ہو جائے تو کہے:
جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب کوئی بندہ نماز سے فارغ ہو جائے تو خدا تعالیٰ سے بہشت کی دُعا کرے دوزخ سے خدا کی پناہ مانگے اور حور العین کے ساتھ تزویج کی درخواست کرے۔
﴿۸﴾ مخصوص آیات کی تلاوت
موثق سند کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب حق تعالیٰ نے درج ذیل آیات کے زمین پر نازل کرنے کا حکم دیا تو ان آیات نے عرش الٰہی کے ساتھ لگ کر کہا: پروردگارا تو ہمیں گناہکاروں اور خطاکاروں کی طرف بھیج رہا ہے۔ تب ذاتِ حق نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ تم روئے زمین پر چلی جاؤ، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! تمہیں آل محمدؐ اور ان کے شیعوں میں سے جو بھی تلاوت کرے گا میں اس پر ہر روز پوشیدگی میں ستر مرتبہ نظر رحمت کروں گا اور ہر نظر میں اس کی ستر حاجتیں پوری کروں گا چاہے اس نے بہت سے گناہ بھی کیے ہوں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص ہر نماز کے بعد ان آیات کو پڑھے تو میں اسے خطیرۂ قدس میں ٹھہراؤں گا، خواہ وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، اگر اُسے خطیرۂ قدس میں نہ ٹھہراؤں تو بھی ہر روز ستّر مرتبہ اس پر اپنی خاص نظر رحمت کروں گا، اگر یہ نہ کروں تو پھر ہر روز اس کی ستّر حاجتیں پوری کروں گا کہ جن میں کم سے کم یہ ہے کہ اس کے گناہ معاف کروں گا، اگر یہ نہ کروں تو اسے شر شیطان اور ہر دشمن کے شر سے اپنی پناہ میں رکھوں گا اور اسے ان پر غلبہ عطا کروں گا اور موت کے علاوہ کوئی چیز اس کو جنت میں جانے سے نہ روک سکے، اور وہ آیات یہ ہیں:
☆ سورۂ فاتحہ کی تمام آیات
☆ آیۃ الکرسی ھم فیہا خالدون تک
☆ آیت شہادت:
☆ اور آیت ملک:
معتبر سند کے ساتھ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے تو کوئی کاٹنے والی چیز اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گی۔ ایک اور معتبر حدیث میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: یاعلیؑ تمہارے لیے ہر فریضہ نماز کے بعد آیۃالکرسی تلاوت کرنا ضروری ہے کیونکہ پیغمبر یا صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اس عمل کو ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتا۔ رسول اللہ سے منقول ہے کہ جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے تو سوائے موت کے کوئی چیز اسے بہشت میں جانے سے نہیں روک سکے گی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے تو اس کی نماز قبول ہو گی وہ خدا کی پناہ میں رہے گا اور خدا اسے گناہوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھے گا۔
﴿۹﴾
شیخ کلینیؒ، ابن بابویہؒ اور دیگر محدّثین نے معتبر اسناد کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ شیبہ ہذلی نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میں بوڑھا ہو چکا ہوں، میرے اعضاء اب ان اعمال کے بجا لانے سے عاجز ہو گئے جن کا میں پہلے سے عادی تھا، یعنی نماز، روزہ، حج اور جہاد و غیرہ تو اب آپ مجھے ایسا کلام تعلیم فرمائیں جو میرے لیے آسان ہو اور مفید بھی ہو۔ اس پر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ پھر کہو تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ تب اس نے اپنے الفاظ کو دوتین مرتبہ دہرایا، یہ سُن کر حضور نے فرمایا تیرے سا تھ ہمدردی کے لئے اردگرد کے تمام درخت اور مٹی کے ڈھیلے رو پڑے ہیں۔ پس جب تم نماز فجر سے فارغ ہو جاؤ تو دس مرتبہ کہو:
اس کلام کی برکت سے خدا تم کو اندھے پن، دیوانگی، برص، جذام، پریشانی اور فضول گوئی سے نجات دے گا۔ شیبہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو میری دُنیا کے لیے ہے، میری آخرت کے لیے بھی تو کچھ فرمائیں تب حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد یہ کہا کرو:
آنحضرت نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس دُعا کو پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے اور مرتے دم تک اسے جان بوجھ کر ترک نہ کرے تو جب وہ میدان حشر میں آئے گا تو اس کیلئے بہشت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔ یہ آخری دُعا دیگر معتبر اسناد کے ساتھ بھی روایت کی گئی ہے۔
﴿۱۰﴾ تسبیحات اربعہ
شیخ طوسیؒ، ابن بابویہؒ اور حمیری نے صحیح اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت رسول اللہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: اگر تم اپنے تمام مال و اسباب اور اشیاء و ظروف میں سے ہر ایک کو دوسرے پر رکھتے چلے جاؤ تو کیا وہ آسمان تک پہنچ جائیں گے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: آیا تم چاہیتے ہو کہ میں تمہیں ایسی چیز تعلیم کروں کہ جس کی جڑیں زمین اور شاخیں آسمان تک گئی ہوں؟ سب نے عرض کیا ضرور یا رسولؐ اللہ۔ اس وقت آپؐ نے فرمایاکہ ہر نماز کے بعد تیس مرتبہ کہو:
ہاں یہ وہ کلام ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ یہ انسان کو چھت تلے دبنے، پانی میں ڈوبنے، کنوئیں میں گرنے، درندوں کے چیرنے پھاڑنے، بدتر موت اور آسمان سے آنے والی بلاؤں سے بچاتا ہے۔ یہی ان باقیات الصالحات میں ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔
دیگر صحیح اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد اپنی جگہ چھوڑنے سے پہلے ان تسبیحات اربعہ کو چالیس مرتبہ پڑھے تو وہ خدا سے جو کچھ مانگے وہ اسے عطا فرمائے گا۔ صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد تیس مرتبہ سُبْحَانَ ﷲ کہے تو اس کے بدن پر موجود ہر گناہ ساقط ہو جائے گا۔ ایک اور صحیح حدیث میں آنجناب ہی سے منقول ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں جس ”ذکر کثیر“ کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی ستائش کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد تیسں مرتبہ سُبْحَانَ ﷲ کہا جائے۔
قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے براء بن عاذب سے فرمایا: آیا چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایسی بات بتاؤں کہ جسے بجالانے سے تم خدا کے پکے اور سچّے دوست بن جاؤ؟ اس نے کہا کہ ضرور فرمائیے! آپ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھ لیا کرو! جب تم ایسا کرو گے تو دنیا میں تم سے ایک ہزار بلائیں دور ہوں گی جن میں سے ایک مرتد ہونا بھی ہے، نیز تمہارے لیے آخرت میں ہزار مرتبے ذخیرہ کر دیئے جائیں گے جن میں سے ایک مرتبہ یہ بھی ہے کہ تم نبی کریمؐ کی ہمسائیگی میں ہو گے۔
﴿۱۱﴾ حاجت ملنے کی دعا
شیخ کلینیؒ نے سندحسن کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص فریضہ نماز کے بعد تین مرتبہ کہے:یہ دعا پڑھنے والا خدا سے جو کچھ بھی مانگے مِل جائے گا۔
﴿۱۲﴾ تہلیل
شیخ برقی نے موثق سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر اپنے زانوؤں کو حرکت دینے سے پہلے جو بھی شخص اس تہلیل کو دس مرتبہ پڑھے تو حق تعالیٰ اس کے چار کروڑ گناہوں کو مٹا دے گا اور اس کے لیے چار کروڑ نیکیاں لکھ دے گا۔ اس کے پڑھنے کا اتنا ثواب ہے کہ گویا اس شخص نے بارہ مرتبہ قرآن مجید ختم کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ میں تو سو مرتبہ پڑھتا ہوں لیکن تمہارے لیے اس کا دس مرتبہ پڑھنا ہی کافی ہے۔ اور وہ تہلیل یہ ہے:
اس تہلیل کی فضیلت میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے، خصوصاً اسے صبح و شام کی نمازوں کی تعقیبات میں اور طلوع و غروب کے وقت پڑھنا چاہیئے۔
﴿۱۳﴾ زندان میں حضرت یوسفؑ کی دعا
شیخ کلینیؒ، ابن بابویہؒ اور دیگر علما نے صحیح اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جبرائیلؑ زندان میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا ہر نماز کے بعد یہ دُعا پڑھا کریں:
﴿۱۴﴾ قیامت میں رو سفید ہونے کی دعا
بلد الامین میں رسول اللہ سے روایت ہوئی ہے کہ جو یہ چاہتا ہے کہ قیامت میں خداوند عالم کسی کو اس کے برے اعمال پر مطلع نہ ہونے دے اور اس کے گناہوں کی فہرست کسی کے سامنے نہ کھولے تو اسے ہر نماز کے بعد یہ کلام پڑھنا چاہیئے:
﴿۱۵﴾ بیمار اور تنگدستی کیلئے دعا
کفعمیؒ نے حضرت رسول اللہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کی خدمت میں اپنی بیماری اور تنگدستی کی شکایت کی تو آپؐ نے اس سے فرمایاکہ ہر فریضہ نماز کے بعد یہ دُعا پڑھا کرو:
ایک اور روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے فرمایا: جب بھی مجھے کوئی مشکل امر درپیش ہوتا تو جبرائیلؑ میرے پاس آتے اور کہتے کہ اس ﴿مذکورہ بالا﴾ دعا کو پڑھیں۔ معتبر احادیث میں آیا ہے کہ دل کے وسوسوں، قرض، پریشانی اور بیماری دور کرنے کیلئے یہ دُعا بار بار پڑھی جائے بعض روایات میں ہے کہ اس کے شروع میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ بھی پڑھا جائے۔
﴿۱۶﴾ ہر نماز کے بعد دعا
شیخ مفیدؒ نے مقنعہ میں تعقیبات نماز کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ہر نماز کے بعد یہ دُعا پڑھے:
﴿۱۷﴾ سورۂ توحید کی تلاوت
ابن بابویہؒ، شیخ طوسیؒ، اور دیگر علماء نے معتبر اسناد کے ساتھ امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا سے اس حال میں رخصت ہو کہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جیسے سونا کندن بنا ہوا ہو اور وہ یہ بھی چاہتا ہو کہ قیامت والے دن کوئی شخص اس سے ظلم کی دادخواہی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ پنجگانہ نمازوں کے بعد سورہ قُل ھوَ ﷲُ اَحَد بارہ مرتبہ پڑھے اور پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے درج ذیل دُعا پڑھے۔ اور حضرت نے فرمایا کہ یہ دعا اس پوشیدہ رازوں میں سے ہے کہ جسے رسولَ اللہ نے مجھے تعلیم دی اور مجھے حکم دیا کہ حسنؑ اور حسینؑ کو تعلیم دوں اور وہ دعا یہ ہے:
بعض معتبر نسخوں میں یہ دعا یوں درج ہے:
شیخ کلینیؒ نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جو شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے ہر فریضہ نماز کے بعد سورہ قُل ھُوَ ﷲُ اَحَدُ کا پڑھنا ترک نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ جو شخص اس سورہ کی تلاوت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی جمع کر دے گا، پس وہ اس کو، اس کے والدین کو اور اس کے رشتہ داروں کو بخش دے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد سورہ قُلْ ھُوَ ﷲُ اَحَد پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی تزویج سیاہ چشم حور کے ساتھ کرے گا۔ سید ابن طاؤس نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ جو شخص ہر نماز کے بعد سورہ قُلْ ھُوَ ﷲُ اَحَد پڑھے گا آسمان سے اس پر رحمت نازل ہو گی اور اسے تسکین حاصل ہو گی اور اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت فرمائے گا نیز وہ اس کے گناہ معاف کر دے گا اور جو بھی حاجت طلب کرے گا خدا اسے پوری کرے گا۔
﴿۱۸﴾ گناہوں سے بخشش کی دعا
شیخ کلینیؒ اور دیگر علما نے معتبر سند کے ساتھ اہلبؑ یت سے روایت کی ہے کہ جو شخص ہر نماز کے بعد اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی داڑھی پکڑے ہوئے بائیں ہاتھ کو آسمان کی طرف بلند کر کے تین مرتبہ کہے:
اور پھر تین مرتبہ کہے:
اس کے بعد دائیں ہاتھ کو داڑھی سے ہٹا کر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر تین مرتبہ کہے:
پھر ہاتھوں کو پلٹا کر یعنی ہتھیلیاں نیچے کی طرف کر کے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے تین مرتبہ کہے:
اور پھر یہ کہے:
پھر فرمایا کہ جو شخص اس دعا کو مذکورہ طریقے سے پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دے گا اور اس سے خوشنود ہو گا، جن و انس کے علاوہ دیگر مخلوقات بھی اس کی موت تک اس کیلئے استغفار کرتے رہیں گے۔
﴿۱۹﴾ گناہوں سے بخشش کی ایک اور دعا
شیخ مفیدؒ نے کتاب ”مجالس“ میں جناب محمد بن حنفیہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک دن میرے والد گرامی امیر المؤمنین علیہ السلام خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص کو دیکھا کہ جو غلاف کعبہ کو پکڑ کر یہ دُعا پڑھ رہا تھا۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس سے پوچھا: یہی تمہاری دعا تھی؟ اس نے کہا جی ہاں! کیا وہ دُعا آپؑ نے سُن لی ہے؟ آپؑ نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا اس دعا کو ہر نماز کے بعد پڑھا کریں، قسم بخدا کہ جو بھی مومن نماز کے بعد یہ دُعا پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دے گا خواہ وہ تعداد میں آسمان کے ستاروں، بارش کے قطروں، ریت کے ذرّوں اور غبار خاک کے مانند ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: میں اس دعا کو جانتا ہوں، یقیناً حق تعالیٰ کی بخشش بڑی وسیع ہے اور وہ بڑا ہی کریم ہے۔ تب اس شخص نے کہا:اے امیر المؤمنینؑ ! آپؑ نے سچ فرمایا اور ہر عالم سے بڑھ کر ایک عالم ہوتا ہے وہ مرد حضرت خضر علیہ السلام ﴿بات کرنے والا شخص خود حضرت خضر علیہ السلام ﴾ تھے۔ کفعمی نے بلد الامین میں اسی دعا کو ذکر کیا ہے جو یہ ہے:
﴿۲۰﴾ گذشتہ دن کا ضائع ثواب حاصل کرنے کی آیات
دیلمیؒ نے اعلام الدین میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول پاک نے فرمایا: جو شخص مغرب کی نماز کے بعد ان آیات کو تین مرتبہ پڑھے تو وہ گذشتہ دن کا ضائع ہو جانے والا ثواب حاصل کر لے گا، اس کی نماز قبول ہو گی۔ اگر ہر فریضہ اور سنتی نماز کے بعد پڑھے تو اس کے لیے آسمان کے ستاروں، بارش کے قطروں، درختوں کے پتوں اور زمین کے ذرّوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں لکھی جائیں گی۔ جب وہ مرے گا تو قبر میں اسے ہر نیکی کے عوض دس نیکیاں مزید عطا ہوں گی۔ وہ آیات یہ ہیں
﴿۲۱﴾ طویل عمر کیلئے دعا
سیدا بن طاوؤسؒ نے معتبر سند کے ساتھ جمیل بن دراج سے روایت کی ہے کہ ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مولا! میری عمر زیادہ ہو گئی ہے میرے رشتہ دار مر چکے ہیں کوئی مونس اور ہمدم نہیں ملتا مجھے ڈر ہے کہ میں خود بھی مر جاؤں گا حضرت نے فرمایا: اپنے رشتہ داروں کی نسبت صالح مومن بھائی اُنس کیلئے بہتر ہیں، اگر تم اپنی اور عزیز و اقارب اور دوستوں کی لمبی عمر چاہتے ہو تو ہر نماز کے بعد اس دُعا کو پڑھا کرو:
اگر چاہو تو اپنے ایک ایک دوست کا نام لو اور کہو: نہ فلاں کے بارے میں نہ فلاں کے بارے میں برائی سے دو چار نہ کرنا۔